قتیل شفائ کی کتاب “برگد” کا جائزہ – محمد حسین

قتیل شفائ اردو ادب کا نمایاں نام… مگر زیادہ تر لوگ انہیں فلمی نغموں کے حوالے سے جانتے ہیں ان کا اصل نام اورنگ زیب خاں تھا اور قتیل تخلص تھا۔1919 میں ہری پور، ضلع ہزارہ (صوبہ سرحد) میں پیدا ہوئے۔ گیت ، نظمیں غزلیں لکھیں بھی مگر فلمی گیتوں نے سامعین کو بہت متأثر کیا۔ ۔11؍جولائی 2001ء کو انتقال کرگئے۔’مونالیزا، آموختہ’ پیراہن’سمندر میں سیڑھی، ہریالی’ گجر جلترنگ’ روزن’ جھومر’ چھتنار’ ‘ ابابیل، برگد، گھنگرو، رنگ ، خوش بو،مطربہ ‘گفتگو’ گیت‘(شاہ کار گیت) کے نام سے کتب تحریر کیں.
قتل شفائ ادبی کئ ادبیاصناف پر دسترس رکھے تھے اس بات کا مظہر ان کی کتاب “برگد” ہے. جس میں غزل، نظم، رباعی، خماسی اور دوہے شامل ہیں.


یہ کتاب 1988 میں سنگ میل پبلیکیشن لاہور نے شائع کی. کتاب میں جا بجا ایسی سخن آرائی نظر آتی ہے کہ قاری واہ واہ کیئے بغیر نہیں رہ سکتا.
قتیل شفائ نے کتاب “برگد” اپنی بہن اور بیوی کے نام معنون کی ہے.
بہن کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں.
جس کے پیار کے برابر کسی بھائ کو
اپنی بہن کا پیار نہ مل سکا ہوگا.
نصف بہتر، شریک حیات کو اس انداز میں خراج پیش کرتے ہیں
جس کا زندگی بھر بے نام و نشان
ایثار مر کر بھی نہ بھلا سکوں گا.
285 صفحات پر مشتمل کتاب کا ہر صحفہ جدا رنگ لئے ہوئے ہے.ابتد سے انتہا تک قاری اشعار کے سحر سے نہیں نکل سکتا. دعا کے عنوان سے یہ شعر دیکھئے…
“اے خدا اک ایسی تو، مجھےکو زندگانی دے
جو میرے ارادوں کو،
عمر جاودانی دے”
قتل شفائ کی اس کتاب کو پڑھ کر ہر حال میں زندہ رہنے کا حوصلہ ملتا ہے وہ کہتے ہیں
“اس دھوپ میں یہ بھی غنیمت ہے
سایا میرے ساتھ چل رہا ہے”
“برگد” میں قتیل شفائی نے انسانیت سے محبت کا درس منفرد انداز میں دیا ہے.
” کہو سب شہر والوں سے کہ اس کے ساتھ ہولے
قتیل انسانیت کا گیت سننانا چاہتا ہے”
برگد میں رومان پروری بھی ہے. محبوب کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ بھی، محبوب کے قرب کی لطافت کا ذکر بھی ہے اور فرقت کے لمحات کا بھی وہ محبوب سے بے لوث محبت کے قائل ہیں شعر دیکھئے
” یاور کہاں تک اور محبت نبھاؤں میں
دو مجھ کو بد دعا کہ اسے بھول جاؤں میں”
قتیل ایک انسان کے نقصان کو سب کا نقصان سمجھتے ہیں. وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ہر شخص کو ایک ایسی شمع روشن کرنی ہے جس کی کرنوں سے ہر شخص فیضیاب ہو اس کتاب میں یہ جذبہ کثرت کے ساتھ اشعار کی صورت میں بیان کیا گیا ہے.
رشتہ دیوار و در تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
مت گرا اس کو یہ گھر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
کچھ تو ھم اپنے ضمیروں سے بھی کر لیں فیصلہ
گر چہ رہبر معتبر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
تحفظ کے عنوان سے یہ قطعہ ماں کی محبت سے لبریز ہے
جہاں میرے بھٹک جانے کا اندیشہ ہوا پیدا
وہیں راستہ دکھایا دودھ جیسی کچھ صداؤں نے
کوئ خطرہ قتیل آیا جو نہی مجھ پر جھپٹنے کو
مجھے اپنے پروں میں لے لیا ماں کی دعاؤں نے
برگد میں قتیل نے نام نہاد رہنماوں سے بے زاری کا اظہار کیا ہے. ان کے نزدیک رسمی رہبری زہر قاتل ہے. کہتے ہیں
” شرمندہ انہیں اور بھی اے میرے خدا کر
دستار جنہیں دی ہے انھیں سر بھی عطا کر”
دوھا ملاحظہ کیجئے
تجھ بن ہوگئ ساجنَا میں کتنی کنگال
چاندی بن کہ رہ گئے سونے جیسے بال
قتیل مرد اور عورت کے مساوی حقوق کے قائل ہیں برگد میں اس کا انھوں نے کھل کر ذکر کیا ہے دوھا ملاحظہ کریں
” ستی تو میں ہو جاؤں گی پر یہ مجھے بتا
پہلے اگر میں مر گئی جلے گا تو بھی کیا”
جو قارئین، عزم، انسان دوستی، معاشرتی ناھمواری، محبوب کی تڑپ، اشعار کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں ان کے لئے “برگد” جھلستی فضا میں سرد ہوا کا جھونکا محسوس ہوگی. پڑھئے… اور اک حسین دنیا میں داخل ہوجائںیں.

Leave a Reply